*_تین شاعر، تین غزلیں
*احمد ندیم قاسمی*
شعور میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے
مگر میں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے
اگرچہ فرطِ حیا سے نظر نہ آؤں اُسے
وہ روٹھ جائے تو سو طرح سے مناؤں اُسے
طویل ہجر کا یہ جبر ہے کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے
اُسے بُلا کے مِلا عمر بھر کا سنّاٹا
مگر یہ شوق کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے
اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
میں سوچتا ہوں کہاں جا کے ڈھونڈ لاؤں اُسے
ابھی تک اُس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے تو خدا کس لیے بناؤں اُسے
ندیمؔ ترکِ محبت کو ایک عمر ہوئی
میں اب بھی سوچ رہا ہوں کہ بُھول جاؤں اُسے
*احمد فراز*
کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اُسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اُسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاؤں اُسے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤںاُسے
وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اُسے
جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آؤں اُسے
*حامد اقبال صدیقی*
جدائیوں کے تصوّر ہی سے رُلاؤں اُسے
میں جھوٹ موُٹ کا قصّہ کوئی سُناؤں اُسے
اُسے یقین ہے کتنا مِری وفاؤں کا
خلاف اپنے کسی روز ورغلاؤں اُسے
وہ تپتی دھوپ میں بھی ساتھ میرے آئے گا
مگر میں چاندنی راتوں میں آزماؤں اُسے
غموں کے صحرا میں پھِرتا رہوں اُسے لے کر
اُداسیوں کے سمندر میں ساتھ لاؤں اُسے
مزہ تو جب ہے اُسے بیڑ میں کہیں کھودوں
پھر اُس کے بعد کہیں سے میں دھونڈ لاؤں اُسے
یہ کیا کہ روز وہی سوچ پر مسلّط ہو
کبھی تو ایسا ہو، کچھ دیر بھول جاؤں اُسے
کچھ اور خواب بھی اُس سے چھُپا کے دیکھے ہیں
کچھ اور چہرے نگاہوں میں ہیں، دِکھاؤں اُسے
وہ گیلی مٹّی کی مانند ہے، مگر حامدؔ
ضروری کیا ہے کہ اپنا ہی سا بناؤں اُسے
No comments:
Post a Comment