Saturday, 21 October 2017

3 Shaeer 3 Ghazlain

*_تین شاعر، تین غزلیں
*احمد ندیم قاسمی*
شعور میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے
مگر میں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے
اگرچہ فرطِ حیا سے نظر نہ آؤں اُسے
وہ روٹھ جائے تو سو طرح سے مناؤں اُسے
طویل ہجر کا یہ جبر ہے کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے
اُسے بُلا کے مِلا عمر بھر کا سنّاٹا
مگر یہ شوق کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے
اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
میں سوچتا ہوں کہاں جا کے ڈھونڈ لاؤں اُسے
ابھی تک اُس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے تو خدا کس لیے بناؤں اُسے
ندیمؔ ترکِ محبت کو ایک عمر ہوئی
میں اب بھی سوچ رہا ہوں کہ بُھول جاؤں اُسے

*احمد فراز*
کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اُسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اُسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاؤں اُسے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤںاُسے
وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اُسے
جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آؤں اُسے

*حامد اقبال صدیقی*
جدائیوں کے تصوّر ہی سے رُلاؤں اُسے
میں جھوٹ موُٹ کا قصّہ کوئی سُناؤں اُسے
اُسے یقین ہے کتنا مِری وفاؤں کا
خلاف اپنے کسی روز ورغلاؤں اُسے
وہ تپتی دھوپ میں بھی ساتھ میرے آئے گا
مگر میں چاندنی راتوں میں آزماؤں اُسے
غموں کے صحرا میں پھِرتا رہوں اُسے لے کر
اُداسیوں کے سمندر میں ساتھ لاؤں اُسے
مزہ تو جب ہے اُسے بیڑ میں کہیں کھودوں
پھر اُس کے بعد کہیں سے میں دھونڈ لاؤں اُسے
یہ کیا کہ روز وہی سوچ پر مسلّط ہو
کبھی تو ایسا ہو، کچھ دیر بھول جاؤں اُسے
کچھ اور خواب بھی اُس سے چھُپا کے دیکھے ہیں
کچھ اور چہرے نگاہوں میں ہیں، دِکھاؤں اُسے
وہ گیلی مٹّی کی مانند ہے، مگر حامدؔ
ضروری کیا ہے کہ اپنا ہی سا بناؤں اُسے

Mirza Muhammad Hadi Ruswa 1857-1931

مرزا محمد ہادی رسوا
(1857ء تا 21 اکتوبر، 1931ء)

ایک اردو شاعر اور فکشن کے مصنف (بنیادی طور پر مذہب، فلسفہ، اور فلکیات کے موضوعات پر) گرفت رکھتے تھے۔ انہیں اردو، فارسی، عربی، عبرانی، انگریزی، لاطینی اور یونانی زبانوں میں مہارت تھی۔ ان کا  زمانہ ناول امراؤ جان ادا 1905ء میں شائع ہوا جو ان کا سب سے پہلا ناول مانا جاتا ہے۔ یہ ناول لکھنؤ کی ایک معروف طوائف اور شاعرہ امراؤ جان ادا کی زندگی کے گرد گھومتا ہے بعد ازاں ایک پاکستانی فلم امراؤ جان ادا (1972ء)، اور دو بھارتی فلموں، امراؤ جان (1981ء) اور امراؤ جان (2006ء) کے لیے بنیاد بنا۔ 2003ء میں نشر کئے جانے والے ایک رزا محمد ہادی رسوا کی زندگی کی درست تفصیلات دستیاب نہیں ہیں اور ان کے ہم عصروں کی طرف سے دی گئیں معلومات میں تضادات موجود ہیں البتہ رسوا نے خود تذکرہ کیا ہے کہ ان کے آباء و اجداد فارس سے ہندوستان میں آئے اور ان کے پردادا سلطنت اودھ کے نواب کی فوج میں ایک ایڈجوٹنٹ تھے۔ جس گلی میں رسوا کا گھر تھا اسے ایڈجوٹنٹ کی گلی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد اور دادا کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا کہ وہ دونوں ریاضی اور فلکیات میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ مرزا محمد ہادی رسوا 1857ء کو، ایک گھڑسوار، فوجی افسر، مرزا محمد تقی کے گھر لکھنؤ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔انہوں نے گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ سولہ سال کے تھے جب ان کے والدین دنیا سے کوچ کر گئے۔ نوجوانی میں وفات پانے والےان کے بڑے بھائی مرزا محمد ذکی، ایک علمی شخصیت کے مالک تھے۔ اس دور کے ایک مشہور خطاط حیدر بخش نے رُسوا صاحب کو خوش خطی سکھائی اور انہیں کام کرنے کے لئے کچھ رقم ادھار بھی دی۔ لیکن حیدر بخش کی آمدنی ڈاک کی جعلی ٹکٹ سازی سے آتی تھی لہٰذا اُسے گرفتار کر لیا گیا اور ایک طویل مدت کے لئے قید کی سزا سنائی گئی۔رُسوا کے لکھنے کے کیریئر میں اُن کی مدد کرنے والے بہت سے لوگوں میں سے ایک اردو شاعر، دبیر بھی تھے۔ رسوا نے گھر میں تعلیم حاصل کی اور میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے منشی فاضل کے کورس کا امتحان دیا اور منشی فاضل ہوگئے۔ پاکستانی ٹی وی سیریل کی بھی بنیاد یہی ناول تھا
مرزا محمد ہادی رسوا صاحب کا وصال یہیں حیدرآباد دکن میں 1931ء میں ہوا اور تدفین معظم جاہی مارکیٹ کے قریب واقع قبرستان مرلی دھر باغ میں انجام پائی۔ انگریزی سے ترجمہ